Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

103 طغرل کی آمد نے گھر کے وحشت زدہ ماحول کی خاموشی توڑدی تھی ۔ دادی جان کی خوشی تو دیدنی تھی اس بار صباحت کے چہرے پر بھی مسرت و اطمینان تھا وہ بڑھ چڑھ کر اس کی خاطر مدارت میں لگی ہوئی تھیں، پچھلے دنوں سے عائزہ کی وجہ سے جو ان پر جھنجلاہٹ غصہ اور تفکر چھایا رہتا تھا اس میں قدرے کمی واقع ہوئی تھی ۔ فیاض صاحب پر جو گہری سنجیدگی اوردبیر خاموشی طاری ہوگئی تھی۔
وہ طغرل کو سامنے دیکھ کر گویا برف کی مانند پگھل گئی تھی ۔ 
”آنے کی اطلاع تو دیتے بیٹا! میں آپ کو ریسیو کرلیتا ، گھر کی گاڑی ہوتے ہوئے بھی ایئر پورٹ سے گاڑی ہائیر کی “ناشتے کے بعد وہ ان کے ساتھ اسٹڈی روم میں آگیا تھا وہ دونوں چیئرز پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ 
”چچا جان ! میں وہاں بے حد بوریت محسوس کر رہا تھا اور مجھے فکر تھی ، آپ پر کام کا برڈن بہت زیادہ ہوچکا ہے آپ کا اتنا بزنس اور پھر یہاں کوٹھی اور فیکٹری کی کنسٹرکشنز نے آپ کو بے حد بزی کردیا ہے یہ احساس تھا مجھے اسی لیے پاپا سے میں نے ان کی صحت بحال ہوتے ہی ساری کنڈیشن بتا کر یہاں آنے کی اجازت لی ان کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا، انہوں نے فوراً ہی مجھے یہاں آنے کے لیے اجازت دے دی “وہ باتوں کے دوران ان کا جائزہ بھی لے رہا تھا۔


اس کو یہاں سے گئے ڈیڑھ ماہ کا قلیل عرصہ ہوا تھا اور اس عرصے میں وہ بہت کمزور ہوگئے تھے سنجیدہ وہ پہلے بھی تھے مگر اب ان کی سنجیدگی میں گمبھیر خاموشی بھی شامل ہوگئی تھی، وہ خاموشی کوئی عام خاموشی نہ تھی۔ یہ وہ خاموشی تھی جس کے پیچھے بھیانک طوفان چھپا کروٹیں لے رہا تھا ۔ صباحت نے کال کرکے اسے اس طوفان کی خبر تو دے دی تھی جو عائزہ کی صورت میں اس گھر کے درودیوار سے ٹکرا کر گزر چکا تھا ان کی التجاؤں پر ہی وہ یہاں آیا تھا وہ فیاض صاحب کی پراسرار خاموشی سے خائف تھیں اور اس کا ادراک طغرل کو یہاں آکر ہوا تھا وہ سوچ رہا تھا ایک طوفان گزر چکا ہے اور دوسرا طوفان تباہی پھیلانے کو تیار ہے ۔
فیاض صاحب کو اس نے اتنا زنجیدہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ 
”اللہ صحت دے ان کو ہمیشہ خوش رکھے ایمان کی سلامتی کے ساتھ (آمین)طغرل بیٹا! بھائی جان کب تک پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟“وہ اس کی سوچوں سے بے خبر گویا ہوئے ۔ 
”پاپا ابھی ریکوری پر ہیں جیسے ہی وہ مکمل صحت مند ہوتے ہیں ویسے ہی وہ یہاں آجائیں گے “
”اوہ! میں تو یہ سب بالکل ہی بھول گیا تھا ، بھائی جان ابھی سفر نہیں کرسکیں گے “ان کے لہجے میں فکر کے ساتھ پشیمانی بھی ابھر آئی تھی ۔
 
”چچا جان ! ایک بات پوچھوں آپ سے ؟“طغرل نے ان کا اضطرابی انداز دیکھتے ہوئے آہستگی سے پوچھا۔ فیاض نے اس کی طرف دیکھا پھر دھیمے سے مسکرا کر بولے ۔ 
”ایک ہی بات کیوں ؟آپ کو جو پوچھنا ہے وہ پوچھ سکتے ہیں مجھ سے ۔ میں آپ کو اپنا بیٹا سمجھتاہوں اور بیٹے کو کوئی بات پوچھنے کے لیے باپ سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے “وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے محبت سے گویا ہوئے ۔
 
”بہت شکریہ چچا جان !“اس نے فرط مسرت سے ان کا ہاتھ چوم کر کہا تو ان کے چہرے پر بھی ایک آسودہ مسکراہٹ پھیل گئی ۔ 
”میں یہ پوچھنا چاہ رہا تھا آپ سے، آپ بے حد اپ سیٹ لگ رہے ہیں، کوئی پرابلم ہے آپ کے ساتھ ؟“
”پرابلم ہے “وہ گہری سانس لے کر گویا ہوئے ۔
”جب آپ نے مجھے بیٹا کہا ہے چچا جان! پھر بتائیں مجھے وہ کیا پرابلم ہے جو آپ کی ڈپریشن کا باعث ہے …کیا ہوا ہے؟“ان کے لہجے میں بے بسی محسوس کرکے وہ تڑپ ہی اٹھا۔
 
”میں عائزہ کی شادی اسی ہفتے میں کرنا چاہتا ہوں “
”اسی ہفتے میں …لیکن یہ کس طرح ممکن ہے ؟اتنے شارٹ ٹائم میں میرج ارینجمنٹ بے حد مشکل ہوجائے گی چچا جان !“ان کے لہجے کی قطیعت نے طغرل کو الجھن میں ڈال دیا۔ 
”کوئی تیاری نہیں ہوگی شادی کی ، سادگی سے ایک دن میں رخصت کردیں گے اس کو ۔ کوئی دھوم دھڑکا کرنے کی ضرورت نہیں ہے “ان کا لہجہ نرم و سپاٹ تھا۔
طغرل نے رسانیت سے سمجھایا۔ 
”کیوں چچا جان! کسی دھوم دھام کی ضرورت کیوں نہیں ہے ؟“اس نے مہذب انداز میں استفسار کیا۔ 
”عائزہ نے میرے مان کو توڑا ہے، میرے اس فخر کو پاش پاش کیا ہے جو ایک باپ کو اپنی بیٹی پر ہوتا ہے اس نے مجھے میری ہی نظروں میں گرادیا ہے ۔ میں اب کبھی بھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کے قابل نہیں رہا، میں اب کبھی اپنا چہرہ نہیں دیکھ پاؤں گا “ان کے پروقار چہرے پر آنسو بہہ نکلے اور وہ کسی شکستہ دیوار کی طرح گرگئے، باہمت اور بہادر، ہنسنے ہنسانے والا طغرل بے حس و حرکت ہوگیا۔
باوقار، باہمت و مضبوط اعصاب رکھنے والے فیاض صاحب کو اس طرح بکھرا ہوا اور ناتواں دیکھ کر اس کی قوت گویائی سلب ہوگئی ، وہ سوچ رہا تھا کیا کرے …کس طرح اس شخص کو دلاسہ دے جس نے ہر قدم پر اس کی مدد کی ، ایک نہایت شفیق اور مہربان مسکراہٹ جس کے چہرے کا احاطہ کیے رکھتی تھی ، وہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے والا شخص ، دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے رو رہا تھا ۔
 
”بیٹیوں کی خاطر میں نے وہ سب کیا جو ایک باپ کرتا ہے اور بدلے میں مجھے کیا ملا ذلت، بے اعتباری، ریزہ ریزہ ہوا بھروسہ۔ “
”چچا جان! پلیز سنبھالیں خود کو، کیا ہوا ہے ؟عائزہ سے کیا غلطی ہوئی ہے آپ مجھے بتائیں تو سہی ؟بمشکل وہ ان کو چپ کرانے میں کامیاب ہوا۔ آنکھیں اس کی بھی نم تھیں۔ اضطرابی کیفیت اس کی رگ و پے میں دوڑنے لگی ۔
”جوان بیٹی گھر سے جائے چھپ کر ، پھر آکر بے ہوش ہوجائے اور بے ہوشی میں اول فول بکے اور جواباً ماں اس کی لغرش پر جھوٹ کا پردہ ڈالے تو ہر راز عیاں ہوجاتا ہے بیٹا، سب گرہیں کھل جاتی ہیں ، میں بھی سب سمجھ گیا ہوں، میری بیٹی نے ہی میری عزت پر نقب لگائی ہے اگر میں کوئی جذباتی مرد ہوتا تو اسی دن عائزہ کو قتل کردیتا اور خود کو بھی مار لیتا مگر مجھے معلوم تھا میری جذباتیت میری ان بین بیٹیوں کو بھی رسوا کردے گی ۔
جو معصوم اور بے قصور ہیں رسوائی اور بدمانی نے اس گھر کا راستہ دیکھ لیا تو تینوں بچیوں کا مستقبل ہمیشہ کے لیے تاریک ہوجائے گا اور میں نہیں چاہتا عائزہ کے کیے کی سزا سب کو ملے “وہ بولتے بولتے بری طرح پسینے میں شرابور ہوگئے ۔ 
”ریلیکس چچا جان! آپ اتنے ڈپریسڈ مت ہوں، مجھے عائزہ سے بات کرنے دیں، مجھے یقین ہے ایسا کچھ نہیں ہوا ہوگا“وہ رومال سے ان کا چہرہ صاف کرتے ہوئے تسلیاں دے رہا تھا۔
 
”اس سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، میں اس کا وجود اب اس گھر میں بالکل برداشت نہیں کروں گا، میرے دل سے وہ نکل گئی ہے اس گھر سے بھی اس کو جانا ہوگا یہ میرا فیصلہ ہے “
###
صباحت بڑی بے چینے سے طغرل کے اسٹڈی روم سے باہر آنے کا انتظار کر رہی تھی اور انتظار تھا کہ طویل سے طویل تر ہوتا جارہا تھا۔ فیاض نے جو عائزہ کی طبیعت کی خرابی کے بعد ان سے پوچھ گچھ کی تھی اور انہوں نے حقیقت سے آگاہ کرنے کی بجائے ان کو کسی کم فہم کی طرح جھوٹ بول کر ٹالا تھا اور یہی ان کی بڑی غلطی ثابت ہوئی تھی ۔
فیاض صاحب از حد ذی شعور اور دانش مند شخص۔ مکمل طور پر حقیقی ادراک پاچکے تھے مگر ان کے دل میں بیٹی اور بیوی کی طرف سے سخت بدگمانی و تنفر بھر گیا تھا۔ وہ ان کی شدید ترین ناراضی و بداعتمادی کا ہی اظہار تھا کہ وہ ان سے بات تک کرنے کے رودار نہ تھے۔ 
صباحت کو اس سے قبل کبھی ان کے اس مزاج کا اندازہ ہی نہ ہوا تھا، اب یک دم کسی آتش فشاں کی مانند ان کو شعلے اگلتے دیکھا تو وہ اتنی خوف زدہ ہوئیں کہ پہلی فرصت میں انہوں نے طغرل سے خاموشی سے رابطہ کیا اور اس کو ڈھکے چھپے انداز میں نازک صورت حال سمجھائی اور فوراً یہاں آکر معاملہ سنبھالنے کی التجا کی اور وہ کسی سعادت مند بیٹے کی مانند دوسرے دن ہی یہاں موجود تھا۔
اب وہ اندر بیٹھا ان کے صبر و حوصلے کا امتحان لے رہا تھا، جتنی دیر گزر رہی تھی صباحت کے اندر کھلبلی بڑھتی جاریہ تھی ۔ 
اندر کیا باتیں ہورہی ہیں…فیاض اس سے کن راز و نیاز میں مصروف ہیں، وہ کیا کہہ رہے ہیں ؟یہ تمام خیالات ان کی بے سکونی کو مزید بڑھارہے تھے۔ اسٹڈی روم سے آواز باہر نہیں آسکتی تھی ۔ وہ اس وقت تک بے کل چکر لگاتی رہیں جب تک طغرل کو باہر آتے دیکھ نہ لیا، وہ بھی ان کو دیکھ چکا تھا۔
 
”مجھے یقین تھا بیٹا ! میرے بلانے پر آپ فوراً چلے آئیں گے “وہ اسے لے کر اپنے روم میں آگئیں اور مان بھرے لہجے میں بولیں۔ 
 ”چچا جان کو عائزہ کے راحیل سے رشتہ کا علم نہیں ہے پھر بھی وہ بری طرح ہرٹ ہیں اورن ان کو ہرٹ ہونا بھی چاہیے آنٹی! عائزہ نے جو اپنی من مانی کی ہے اس نے ہماری گردنیں جھکادی ہیں “اس کا لہجہ مہذب مگر کسی حد تک ترش و کبیدہ تھا۔
 
”ارے طغرل بیٹا! ایسا کچھ نہیں ہوا ہے، عائزہ نے راحیل کو خون میں لت پت دیکھا تو وہ ڈر گئی تھی اور خوف سے بے ہوش ہوگئی تھی ۔ اس نے اسی بات کا اتنا اثر لیا کہ بیمار پڑ گئی “صباحت نے اپنے مخصوص انداز میں عائزہ کا دفاع کیا۔ 
”یہ پروف نہیں ہے اس کی بے گناہی کا آنٹی! آپ نے اس سے یہ نہیں معلوم کیا کہ وہ وہاں کیوں گئی تھی ؟“
”غلطی ہوگئی اس سے ، بہت شرمندہ ہے وہ “
”غلطی…ہونہہ!جو لوگ کسی کے سمجھانے سے نہیں سمجھتے پھر ایسے لوگوں کو وقت ہی سمجھاتا ہے اور جب وقت سمجھاتا ہے وہ کوئی بھول نہیں سکتا، عائزہ کو بھی اب سمجھ آجائے گی “اس نے سنجیدگی سے کچھ اس انداز میں کہا کہ صباحت گھبرا کر بولیں ۔
 
”ناسمجھ ہے وہ ابھی بیٹا! اس عمر میں نادانیاں تو ہوجاتی ہیں پھر وہ شرمندہ ہے اپنی غلطی پر ہمیں عائزہ کی غلطی معاف کرنی چاہیے “
”لیکن آنٹی! چچا جان اس کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں، نہ جانتے ہوئے بھی وہ سب کچھ جان گئے ہیں، اس وقت سے ہی مجھے خوف تھا اور یہی بات ہوکر رہی “
”کیا جان گئے ہیں وہ ؟انہیں سب معلوم ہوگیا ہے ، اس کا مطلب ہے …پری نے میرے منع کرنے کے باوجود فیاض کو سب بتادیا ہے اوہ…“شدید اشتعال اور تفکر سے ان کے اعصاب تن گئے ۔
 
”پری نے انہیں کچھ نہیں بتایا ہے آنٹی!“اس نے قطعیت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔ 
”پھر اور کون بتاسکتا ہے ان کو ؟فیاض کو الہام ہونے سے تو رہا، میں جانتی ہوں اس نے مجھے ماں تسلیم ہی نہیں کیا نہ ہی میری بیٹیوں کو بہنیں، پری اپنی ماں کے اس گھر سے جانے کا انتقام لے رہی ہے آگ لگارہی ہے ہمارے رشتوں کو ۔ “
”پلیز…پلیز کول ڈاؤن آنٹی! پری نے چچا جان کو کچھ نہیں بتایا اگر وہ بتاتی تو سب سے پہلے دادی جان کو بتاتی ، یہ آپ بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ پری کبھی بھی چچا جان سے کلوزڈ نہیں رہی۔
ان کے درمیان آج تک ایک گیپ رہا ہے۔“ صباحت کی پری کے خلاف بدگمانی کو حد سے سوا دیکھ کر طغرل کو بے حد دکھ ہوا، اس نے مناسب طریقے سے اس کا بچاؤ کیا۔
”ٹھیک ہے میں آپ کی بات پر یقین کرلیتی ہوں، یہ بتائیں فیاض کے کیا ارادے ہیں اب؟“پری کی جانب سے ان کا دل صاف نہیں ہوا تھا لیکن طغرل سے بھی وہ بات بگاڑنا نہیں چاہتی تھیں سو وہ تحمل سے گویا ہوئیں۔ 
”وہ عائزہ کی شادی اسی ہفتے میں ہی کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اس ارادے سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے “
”عائزہ کی شادی اور وہ بھی اس ہفتے میں ؟“وہ بری طرح چکرا گئیں۔

   1
0 Comments